• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ٹیکس چوری، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے تمباکو مافیا کے لوگ حکومت میں ہیں

ٹیکس چوری، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے تمباکو مافیا کے لوگ حکومت میں ہیں


رپورٹ: عدنان رضا

کراچی:…حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ملک بھر میں غیر قانونی سیگریٹ کی کھلے عام فروخت ہورہی ہے۔

حکومت نے سیگریٹ کا کم سے کم ریٹ 62روپے 76پیسے طے کررکھا ہے ، سیگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے حکومت کو ایک پیکٹ پر 42روپے 11پیسے ٹیکس دینا ہوتا ہے، مگرملک بھر میں 30سے 40روپے میں ایک سگریٹ کا پیکٹ فروخت ہورہا ہے۔

اگر حکومت اپنے ہی فیصلے پر قائم رہتی اور تمام غیر قانونی سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو ٹیکس نیٹ میں لاتی توتقریباً 35ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل ہوتی، سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے تمباکو مافیا کے لوگ پی ٹی آئی حکومت میں ٹیکس چوری کا ایجنڈا آگے لے جارہےہیں، ٹیکس چوری، سیاسی اثررسوخ رکھنے والے تمباکو مافیا کے لوگ حکومت میں ہیں۔

حکمراں جماعت کے ایک سنیئر کے پی کے صوبائی وزیر کی کمپنی کے 7سگریٹ برانڈ ہیں جو مارکیٹ کا 2فیصد حصہ ہیں، حکومت نے گرین لیف تھرشنگ پلانٹ میں عمل سے گزرنے کے بعد فی کلو تمباکو 300روپے ٹیکس لگایا مگر پلانٹ صرف 10ہیں۔

اس حوالے سے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ نے تہلکہ خیز تحقیقاتی رپورٹ نشر کی پروگرام میں کراچی، پشاور اور لاہور کے مختلف مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں کم قیمت میں سگریٹ فروخت ہورہا ہے، اور ایسے کئی برانڈز ہیں، پروگرام میں تینوں شہروں میں ریکارڈ کی گئی خفیہ رپورٹس نشر کی گئی، کراچی کے نمائندے واجد بلوچ شہر کی مارکیٹ میں گئے۔

انہوں نے مختلف دکان داروں سے بات کی، انہیں کئی درجن ایسے برانڈز ملے، جن کے پیکٹس پر قیمت تو 62روپے 76پیسے درج تھے، مگر وہ فروخت 31 سے 40 روپے میں ہورہے تھے۔

کئی مقامات پر سگریٹ کی ڈبوں پر قیمت پچھلے سال کی درج تھی،یعنی مارکیٹ گزشتہ سال کے ریٹس سگریٹس فروخت ہورہے ہیں،حالانکہ سیگریٹ بنانے والی کمپنیاں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ ہرسال نئی قیمت اور نئی وارننگ کے ساتھ سیگریٹ مارکیٹ میں فروخت کرے گی،مگر اس پابندی کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔

پروگرام میں پشاور کے نمائندے رضوان کی رپورٹ بھی نشر کی گئی،جس میں انہوں نے پشاور کے مختلف مقامات پر سستے داموں فروخت ہونے والے سگریٹس کی نشاندہی کی،اور مختلف دکان داروں سے بات بھی کی،پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں نشر کی گئی لاہور کے نمائندے جواد ملک کی رپورٹ میں بھی حکومت کے طے کردہ نرخ سے کم میں فروخت ہونے والے مختلف برانڈز اور مقامات کی نشاندہی کی گئی۔

پروگرام کے میزبان شاہزیب خانزادہ نے بتایاکہ قانون کے مطابق مہنگی کیٹگری کے ایک ہزار سگریٹ کی کم سے کم قیمت 5ہزار 9سو60روپے ہوگی یعنی اس کیٹگری کے ایک سگریٹ کی قیمت کم سے کم 5روپے 96پیسے بنتی ہےاس کا مطلب ہے 20سگریٹ کا ایک پیکٹ کم سے کم 119روپے کا ہوگاقانون کے مطابق،اس مہنگی کیٹگری کے 1ہزار سگریٹ پر 5ہزار 200روپے ڈیوٹی ہوگی،یعنی ایک سگریٹ پر 5روپے 20پیسے کی ڈیوٹی ہوگی اور20سگریٹ کے پیکٹ پر 104روپے ڈیوٹی دینا ہوگی۔

مہنگی کیٹگری کا سگریٹ کاپیکٹ کم ازکم 119روپے کا ہوگااور اس پر سگریٹ بنانے والی کمپنی کو 104روپے ڈیوٹی دینا ہوگا اسی طرح سستی کیٹگری میں ایک ہزار سگریٹ کی قیمت5ہزار 9سو 60روپے سے کم ہوگی یعنی 119روپے فی پیکٹ سے کم کے سگریٹ کا شمار سستی کیٹیگری میں ہوگا۔

اس کیٹیگری کے ایک ہزار سگریٹ پرایک ہزار 6سو50روپے ڈیوٹی دینا ہوگی، یعنی ایک سگریٹ پر ایک روپے 65پیسےاور20سگریٹ کے پیکٹ پر 33روپے کی ڈیوٹی دینا ہوگی،پروگرام میں مزید بتایا گیا کہ حکومت نے سگریٹ کی کم سے کم کا بھی تعین کیا ہوا ہے، قانون کے مطابق کسی بھی سگریٹ کے برانڈکی قیمت سیلز ٹیکس کے علاوہ کالم ٹو میں موجود سگریٹ کی ریٹیل پرائس کے 45فی صد سے کم نہیں ہوگی ۔

کالم ٹو کے مطابق مہنگی کیٹیگری کے سیگریٹ کی قیمت 119روپے فی پیکٹ بنتی ہے ،اور اس کا45فی صد53روپے64پیسے بنتا ہے،پھر اس پیکٹ پر ٹیکس بھی لگتاہے، سگریٹ کے ایک ڈبے پر 17فی صد سیلز ٹیکس یعنی 9روپے 12پیسے ادا کرنا ہوتا ہےیعنی سیگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو 33روپے ڈیوٹی اور 9روپے 12پیسےتو ٹیکس کی مد میں ادا کرنے ہوتے ہیں اور سستی کیٹیگری کے سگریٹ کا ایک پیکٹ62روپے 76پیسے سے کم کا فروخت نہیں ہوسکتا۔

پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں کی تحقیقات کے مطابق ملک بھر میں کھلے عام30سے 40روپے میں سگریٹ فروخت ہورہا ہے،پروگرام میں وزیراعظم عمران خان کا بیان بھی چلایا گیا،جس میں انہوں نے (وزیراعظم) نے کہا تھا کہ ملک میں سیگریٹ بنانے والی دو کمپنیاں98فی صد ٹیکس دے رہی ہیں ، جب کہ باقی کمپنیاں 2فی صد ٹیکس دے رہی ہیں مگر پروگرام میں بتایاگیا کہ ایسی کمپنیوں کی جو حکومت کے فکس کردہ ٹیکس سے کم قیمت میں سیگریٹ فروخت کررہی ہیں ،یعنی ٹیکس چوری کرکے سیگریٹس بیچ رہی ہیں،ان کے مالکان میں اہم سیاستدان بھی ہیں،اور یہ لابیز ہمیشہ حکومت کے قریب ہوتی ہیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ سیاستدان اس وقت حکومت میں بھی موجود ہیں۔

خودحکومتی جماعت کے ایک سینیٹر اور خیبر پختون خوا کے صوبائی وزیر کی کمپنی کم سے کم 7 قسم کے سیگریٹ برانڈز فروخت کر رہی ہے ،جو مارکیٹ میں 40 روپے یا اس سےکم میں بک رہی ہیں،اور یہ 7 برانڈز مارکیٹ کاتقریباً 2فی صدشیئر کور کرتی ہیں،صرف یہی نہیں سیگریٹس کے ان 7 برانڈزکیساتھ اور بھی کئی سیاسی وابستگیاں ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کیساتھ سینیٹ کے ممبرز ۔ سینیٹ کی اسٹیندنگ کمیٹی کے ارکان اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے ارکان بھی اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں، یہ بااثر افراد ہیں، جو حکومت پر اثرا نداز ہوتے ہیں، ایسا ہی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ بھی ہوا۔

حکومت نے کوشش کی کہ کسی طرح غیر قانونی طور پر سگریٹ تیار کرنے والی کمپنیوں کو ٹیکس نیٹ میں لایاجائےتو پھر یہ بااثرافراد سرگرم ہوئے اور حکومت پر اثر اندا ز ہوئےاور حکومت اپنے ہی فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی پروگرام میں بتائی گئی تفصیل کے مطابق ایک اندازے کے مطابقanchor-readملک میں تمباکو کی پیداوار 70ملین ٹن ہے،اس میں سے 43ملین ٹن فارمل سیکٹر خریدتا ہے،تو سوال اٹھتا ہے کہ باقی 27ملین ٹن کہا جاتا ہے؟اس سے سگریٹ تیار ہوتا ہے،اور فروخت بھی ہوتا ہے،مگر کاغذات میں نہیں آپاتا اس پر ٹیکس نہیں لگ پاتا۔

کچھ مافیاز اس سے فائدہ اٹھالیتی ہیں اورپھر سستا سگریٹ بیچتی ہیں،پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بتایا گیا کہ،ستمبر 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت نے منی بجٹ پیش کرتے ہوئےایک اچھا قدم اٹھایا۔

ایک کلو تمباکو پر 300روپے کا ٹیکس لگایاتاکہ ٹیکس چوری کا خاتمہ ہو،پہلے 10روپے کا ٹیکس تھاملک میں سگریٹ تیار کرنے والی درجنوں کمپنیاں ہیں،مگر ان میں کچھ قانونی طریقے سے کام کررہی ہیں اور کچھ غیر قانونی طریقے سےقانونی طور پر سگریٹ تیارکرنے والی کمپنیاں اپنا کام قاعدہ اور قانون کے مطابق کرتی ہیں اور حکومت کو ٹیکس دیتی ہیں۔

ان کمپنیوں کو 300روپے فی کلو لیوی ٹیکس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھاکیوں کہ یہ قابل واپسی ٹیکس ہے،جو حکومت کلیم کرنے پر واپس کردیتی ہے۔یعنی ٹیکس ادا کریں،سگریٹ بیچیں ، باقی سارے ٹیکس ادا کریں اور پھر بعد میں حکومت سے وہ ٹیکس کے پیسے واپس لے لیں مگر جو کمپنیاں سگریٹ تیارتوکرتی ہیں۔

مگر ٹیکس نہیں دیتیں بیچتی زیادہ ہیں مگر دکھاتی کم ہیں۔ٹیکس سے بچنے کے لیے حقیقت کو چھپاتی ہیں ،یہ کمپنیاں کتنا تمباکو خریدتی ہیں ،کتنے سیگریٹ تیار کرتی ہیں ،اس حوالے سے سچ نہیں بتاتی،کیوں کہ اگر سچ بتائیں گی تو پھر انہیں پوراٹیکس دینا پڑے گا۔

اس حوالےسے تحریک انصاف کی حکومت نے گرین لیف تھرشنگ پلانٹ میں ہونے والے عمل سے گزرنےکے بعدفی کلو تمباکو پر 300روپے کا ٹیکس لگادیا،ملک بھرمیں ہزاروں تمباکو کے کاشت کار ہیں،اور درجنوں سگریٹ بنانے والےمگرگرین لیف تھریشنگ پلانٹ صرف 10 ہیں،اور اس عمل سے گزرے بغیر سگریٹ بن نہیں سکتا۔

اس پورے عمل سے حکومت کو یہ پتا چل جاتا تھا کہ کس کمپنی نے کتنا تمباکو لیااور اس حساب سےکس کمپنی نے کتنا سگریٹ تیار کیا ہےاورمارکیٹ میں بیچا اور کتنا ٹیکس دیا ہے،یعنی ٹیکس چوری مشکل ہوگئی۔کیوں کہ جب حکومت کو یہ پتا چل جائے گا کہ آپ نے کاشت کار سے کتنا تمباکو لیا ہے توحکومت کو یہ بھی پتا چل جائے گا کہاس تمباکو سے آپ نے کتنے سگریٹ بنائےاور مارکیٹ میں بیچے اور پھر ان پر کتنا ٹیکس دیا۔

اور ٹیکس چوری کی صورت میں فائدہ کم نظر آنے لگاحکومتی فیصلے کے بعد یہ توقع کی جانے لگی کہ اب تمباکو کی صنعت میں ٹیکس چوری نہیں ہوپائے گی اور یہاں سے اضافی30سے 35ارب روپے ٹیکس ملے گا،اور مافیا کی کمر ٹوٹ جائے گی۔

مگر بعد میں تمباکو مافیا سرگرم ہواسگریٹ کی غیر قانونی فروخت میں ملوث سیاست دانوں نے اپنا سیاسی اثر استعمال کیا، پھر اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی کا اجلاس13جون کو ہوا،جس میں خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی شریک ہوئے،اس اجلاس میں خیبر پختون خوا سے ہی تعلق رکھنے والے وزراء بھی شریک ہوئے۔

اس اجلاس میں اس وقت کے وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہراور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی شریک ہوئے ،اس اجلاس میں یہ کہا گیا کہ ایف بی آر۔۔ تمباکو کے کاشت کاروں کو ریلیف فراہم کرے،کیوں کہ ہزاروں خاندان تمباکو کے کاروبار سے منسلک ہیں یعنی یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ٹیکس کاشت کاروں کو دینا پڑے گا،ساتھ ہی اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ اراکین نے ایف بی آر کو کہا کہ وہ تمباکو کی پیداوار کے علاقے کی پولیٹکل اکانومی کو نظر انداز نہ کرے۔

پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں کئی گئی تحقیقات کے مطابق ان سیاسی افراد نے مل کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ٹیکس کاشت کاروں پر لگ رہا ہے،اور غریب کاشت کار اس سے متاثر ہورہے ہیں،مگر ایسا ہےنہیں،جب یہ ٹیکس لگانے کا فیصلہ ہوا،تو اس وقت یہ واضح کردیا گیا کہ اس ٹیکس کابوجھ سگریٹ تیار کرنے والوں پر پڑے گا،نہ کہ کاشت کاروں پر۔

قانونی دستاویزات میں یہ لکھا گیاتھا کہ اس ٹیکس کا اثرکسی بھی صورت میں کاشت کاروں پر نہیں پڑے گاپھر اس وقت کے وزیرمملکت حماد اظہر نے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئےیہ ٹیکس واپس300روپے سے 10روپے کرنے کا اعلان کردیا۔

پروگرام میں بتایا گیا کہ اگر حکومت اپنے ہی فیصلے پر قائم رہتی اور تمام غیر قانونی سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو ٹیکس نیٹ میں لاتی توتقریبا 35ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل ہوتی،مگر حکومت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹی اور اب وزیراعظم عمران خان اسی سیکٹر میں ٹیکس چوری کی مثالیں دے رہے ہیں۔  

تازہ ترین